Saturday, August 27, 2011

جنات نے چھٹی کا دودھ یاد دلادیا (مرسلہ:طارق راحیل)

    یہ1929-30ء کی بات ہے جب ہندوستان تقسیم نہ ہوا تھا ۔میں ایسٹ انڈیا ریلوے میں ڈسٹرکٹ میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے گوالیار میں تعینات تھا۔ گوالیار میں ایک بہت بڑا بنگلہ بالکل ویران پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس بنگلے کو پسند کرلیا۔ مقامی معززین نے مجھ سے کہا کہ اس بنگلے میں بہت سے انگریز اور ہندوستانی قیام کرچکے ہیں اور انہیں بے حد خوفناک حوادث پیش آئے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ بنگلہ چھوڑنا پڑا۔ آپ اس میں قیام کرنے کے ارادے سے باز آجائیے۔ لیکن میں نے کسی کی بات نہ مانی اور میرے بیوی بچے اس کوٹھی میں منتقل ہوگئے۔ تین دن تک کوئی بات نہیں ہوئی۔ چوتھے روز ڈرائنگ روم میں میری بیوی کومیز پر ایک رقعہ رکھا ہوا ملا جس پر تحریر تھا کہ ’’کل رات کو یہاں بہت بڑا ڈاکہ پڑنے والا ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ تم یہ بنگلہ چھوڑ دو۔‘‘
    بیوی تو یہ رقعہ پڑھ کر بہت خوفزدہ ہوئیں۔ فوراً ہی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مطلع کیا گیا۔ چنانچہ مسلح پولیس موقع پر پہنچ گئی اور تمام علاقے کا محاصرہ کرلیا۔ پولیس انسپکٹر نے یہ کہہ کر تشفی دی کہ یہ سب افواہیں ہیں اور یہ رقعہ وغیرہ سب فضول ہے۔ آپ قطعی فکر نہ کریں۔ کسی شریر بچے نے رقعہ لکھ کر میز پر رکھ دیا ہوگا۔ بہرحال ہم نے آپ کے اطمینان کیلئے پولیس کا باقاعدہ پہرہ بٹھا دیا ہے۔ میں ڈرائنگ روم میں پہنچا۔ دیکھا تو میز پر ایک دوسرا رقعہ رکھا تھا۔ میں نے رقعہ اٹھا لیا۔ لکھا تھا ’’جناب یہ توہم پرستی نہیں ہے، آپ کو معلوم ہوجائے گا۔ ‘‘یہ پڑھتے ہی مجھے حیرت ہوئی اور میں نے بہت زور سے کہا ’’اے لکھنے والے! تم کون ہو؟ سامنے کیوں نہیں آتے؟ ‘‘میرے سوال کا جواب نہیں ملا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد پھر ایک رقعہ فضا میں اڑتا ہوا میرے سامنے آکر گرا’’ہم تمہیں پریشان کریں گے۔ تم نے ہماری اجازت کے بغیر یہاں پرقیام کیسے کیا؟ اب بھی وقت ہے یہ بنگلہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جائو ‘‘ میں نے چلا کر کہا ’’ہم مکان نہیں چھوڑیں گے۔ تم اس گھر سے چلے جائو ‘‘
    میری بیوی نے اپنے بہنوئی محمداحمد صاحب کو دہلی تار دیا۔ وہ تین روز بعد آگئے۔محمداحمد دیوہیکل آدمی تھے۔ انہوں نے ہمارا بہت مذاق اڑایا۔ کہنے لگے ’’بھائی صاحب آپ خود سوچئے! اس زمانے میں دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے ۔لیکن آپ ہیں جوفضول اور بے معنی باتوں میں اپنا اور اپنے گھر والوں کا جینا دوبھر کررہے ہیں۔‘‘
    محمداحمد صاحب نے آستینیں چڑھا کر زور سے کہا ’’میں دیکھتا ہوں کیسا جن ہے، سب کسر نکال دوں گا، آئے بڑے جن صاحب‘‘ یہ کلمات ادا ہوئے ابھی چند ہی سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ کسی نے اس زور سے ان کو چانٹا مارا کہ چھٹی کا دودھ یاد آگیا اور حضرت چکرا کر گرپڑے۔ پھر کچھ نہ پوچھئے، خوف کے مارے میرا براعالم تھا۔ محمداحمد تو دوسرے ہی دن دہلی چلے گئے۔ ایک روز ملازم چائے لارہا تھا کہ کسی نظر نہ آنے والے ہاتھ نے ایسا جھٹکا مارا کہ سب چیزیں دور جاگریں اور برتن ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔
    ایک بارسب لوگ کھانا کھانے آکر بیٹھے۔ ہمارے بیٹھتے ہی کھانے میں سے سر انڈ(بدبو) آنے لگی۔ ہم میز سے پرے ہٹ گئے کہ چھت میں سے ایک سانپ میز پر آکر گرا اور اس نے ایک پلیٹ منہ سے پکڑ کر اپنے آگے رکھی اور تمام کھانا چٹ کرگیا۔ پلک جھپکتے ہی وہ سانپ غائب ہوگیا اور تعجب انگیز بات یہ تھی کہ ڈونگے میں ہزاروں بچھو بھرے ہوئے تھے۔
     اس دوران جنوں کی طرف سے دھمکی آمیز رقعے آتے رہے، جن میں لکھا ہوتا تھا کہ مکان چھوڑ دیا جائے۔ ایک دن میں بہت کھول اٹھا۔ واقعہ یہ ہوا کہ میرے چھوٹے بچے کا دودھ جوش ہورہا تھا۔ اس کی پتیلی الٹ دی گئی اور تمام دودھ ضائع ہوگیا اور بچہ بھوک کی وجہ سے تلملا رہا تھا۔ میں نے چلا کر کہا ’’اے ستانے والے جن! مجھے بہت افسوس ہے کہ تم کیسے سنگدل ہوکہ ایک معصوم بچے پر بھی رحم نہیں کرتے شرم کرو شرم‘‘
    فوراً ہی ایک کاغذ کا ٹکڑا چھت سے لہراتا ہوا فرش پر گرا ’’اچھا! ننھے کا دودھ نہ پھینکیں گے‘‘ دودھ پتیلی میں موجود تھا۔ ایک مرتبہ صبح کا وقت تھا ۔ میں نماز کیلئے وضو کررہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ جائے نماز پر ایک بچھو میری ٹانگ پر کھڑا ہے اور اس کے منہ میں ایک سبز رنگ کا کاغذ کا ٹکڑا دبا ہوا ہے۔ اس میں لکھا تھا کہ ’’ہم تنگ آگئے ہیں۔ اس میں خیریت ہے کہ یہاں سے چلے جائو۔‘‘ میں نے زور دے کر کہاکہ ’’آخر کہاں جائیں اور کہاں رہیں؟‘‘ جواب آیا ۔ ’’پہلے مکان چھوڑ دو،پھر ہم بتائیں گے۔‘‘ مجبور ہوکر میں نے ڈاک بنگلے کا پروگرام بنایا اور ہم ڈاک بنگلے میں پندرہ دن رہے مگر کب تک وہاں رہتے۔ پھر اسی مکان میں اٹھ آئے۔ آتے ہی میں نے کہا ’’اے صاحب خانہ!السلام علیکم! لیجئے ہم حاضر ہوگئے ۔میں بعد منت عرض کرتا ہوں کہ آپ یا تو ظاہر ہوکر بات چیت کیجئے اور ہمیں اس مکان میں رہنے کی اجازت دیجئے۔ ہم بہت پریشان ہیں۔‘‘ وہ دن خاموشی سے گزر گیا۔ دوسرے دن تحریری جواب آیا ’’بازو کی چھوٹی کوٹھڑی میں سے سب سامان اٹھالو۔ خبردار ادھر پھر کوئی نہ آنے پائے۔‘‘ ہم نے تمام سامان نکال لیا اور کوٹھری مقفل کردی۔ میں نے پھر اخبار اسٹیشن کلکتہ میں ایک خط شائع کرایا کہ میں ان لوگوں کو جنوں کا مشاہدہ کراسکتا ہوں جو جنات کے وجود کے منکر ہیں۔ اس جن نے بہت اصرار کے بعد اپنا نام یعقوب جن بتایا تھا۔ اخبار میں خط شائع ہونے کے بعد دو بنگالی گوالیار آئے اور میرے یہاں پہنچ کر خواہش کی کہ جنات کو ہم دیکھیں گے۔ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھادیا گیا اور ان کی تواضع کی گئی اور ان سے میں نے کہا کہ آپ کوٹ اور ہیٹ اتار کر بالکل سامنے کھونٹیوں پر لٹکا دیجئے اور انہی کو دیکھتے رہیے۔
    پھر میں نے کہا ’’اے یعقوب جن! یہ بنگالی بھائی تمہارے وجود سے منکر ہیں۔ لہٰذا ان حضرات کو قائل کردو‘‘۔ تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ ان کا ہیٹ اورکوٹ کھونٹی پر سے غائب ہوگیا اور کھونٹی پر ایک عقاب نما جانور جس کی چھ ٹانگیں تھیں اور جس پر کلغی ایسی جیسے اصیل مرغ کے ہوتی ہے اور اس کی آنکھیں الو سے مشابہ تھیں اور وہ پراسرار جانور بڑی ہی خشونت اور غصے کے عالم میں کھا جانے والی نظروں سے انہیں گھور رہا تھا۔ کچھ نہ پوچھئے ان دونوں کا برا حال ہوا۔ چیخنے لگے اور میرے قدموں پر گرے اور گڑگڑا کر کہنے لگے کہ’’ ڈاکٹر صاحب! ہمیں جنوں سے بچائیے۔ ہم قائل ہوگئے۔ توبہ ہماری، اب کبھی جنوں کے خلاف کوئی بات یا کلمہ منہ سے نہ نکالیں گے۔‘‘


No comments:

Post a Comment